01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 2
.
آں چست
از روز میری
قسط نمبر2
احد اور مشائم حویلی کے سامنے والے لان میں بیٹھے ایک دوسرے سے گفت و شنید کر رہے تھے اسی دوران احد گزشتہ روز ہوئے واقعے کے متعلق سوچنے لگا۔
"احد کیا ہوا؟ کیا سوچنے لگ گئے؟"۔ احد کو خیالوں میں ڈبکی لگاتا دیکھ مشائم نے اسے پکارا جسے اسنے ان سنا کر دیا۔ "احد"۔ ہلکا سا اسکے قریب ہوتے مشائم نے اسے جھنجوڑا جس پہ وہ ہکلایا۔
"ہ۔ ہ۔ ہاں؟"۔
"کیا ہوا ہے؟ میں کافی دیر سے اوبزرو کر رہی ہوں تم کہیں کھوئے ہوئے ہو۔۔ از ایوری تھنگ آل رائٹ؟"۔ مشائم نے مضطرب دل سے کہا۔
"ہاں میں ٹھیک ہوں"۔ مصنوعی مسکراہٹ چہرے پہ سجا لی گئی۔
"کوئی تو بات ضرور ہے جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو' احد بتاو مجھے آخر کونسی بات ہے جو تمھیں پریشان کر رہی ہے؟"۔ احد کے چہرے کے تاثرات بھانپتے مشائم نے کہا۔
"مشائم وہ ۔۔۔"۔ وہ زبان جو مشائم کے اصرار پہ بمشکل حرکت پہ آمادہ ہوئی تھی اب دوبارہ سے رکی۔
"نہیں اگر مشائم کو بتا دیا تو مشائم بھی پریشان ہو جائے گی' فلحال اسے کچھ نہیں بتاتا"۔ مشائم کے چہرے کی زیارت کرتے احد نے سوچا۔ " کچھ نہیں مشی وہ بس میں کنسرٹ کے بارے میں سوچ رہا تھا"۔ احد نے صفائی سے بات کو ٹال دیا۔
"کنسرٹ کے بارے میں فکر مند ہونے کی کیا ضرورت؟ تمھارا کنسرٹ تو ہمیشہ ٹاپ پہ رہا ہے اور تو اور تمھارے چینل کی ریٹنگ بھی بڑھ گئی ہے"۔ مشائم کی آنکھیں حیرت سے کھلیں پھر لبوں نے ہنسنے کی گستاخی کی۔
"کیا واقعی وہ میرا وہم تھا یا کوئی حقیقت؟"۔ احد کا دھیان دوبارہ سے بھٹکا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سٹیج کی پچھلی جانب بنے مخصوص پرائیویٹ روم میں احد کنسرٹ کیلیئے تیار بیٹھا تھا جو کچھ ہی دیر میں شروع ہونے والا تھا' علاوہ ازیں وہ مشائم کی راہ میں شدت سے پلکیں بچھائے بیٹھا تھا جو اب تک نہیں پہنچی تھی۔
زندگی میں پہلی بار ایسا ہونے کی وجہ سے وہ گھبرا گیا تھا۔۔ روم میں بے تاب دل کے ساتھ چہل قدمی کرتے' ہاتھ میں سیل پکڑے وہ مشائم کا نمبر ملا رہا تھا جو مستقل "آوٹ آف کوریج" آ رہا تھا۔
"پتہ نہیں مشائم کہاں رہ گئی"۔ وہ بڑبڑایا پھر فون ٹیبل پہ رکھ دیا۔
دروازے پہ دستک کے ساتھ سیکٹری نمودار ہوا۔
"سر شو کا ٹائم ہو گیا ہے"۔ سیکٹری نے مطلع کیا۔
"ٹھیک ہے تم جاو میں آتا ہوں"۔ سیکٹری کو بھیجتے احد نے صوفے پہ رکھا گیٹار اٹھایا اور روم سے نکل گیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"کیا مصیبت ہے یار اس کار کو بھی ابھی خراب ہونا تھا"۔ مشائم کی کار' جھیل کے پاس' بیچ راستے میں اسکا ساتھ چھوڑ چکی تھی جس پہ وہ برہم تھی۔
"اب میں کیا کروں؟ یہاں تو دور دور تک کوئی نظر بھی نہیں آ رہا کہ جس سے مدد طلب کروں"۔ بے چینی میں وہ خود سے ہم کلام یاس کی ڈور تھامے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جہاں دور تک سڑک سنسان پڑی تھی۔
"سگنلز بھی نہیں آ رہے ۔۔ احد کا کنسرٹ بھی شروع ہو چکا ہو گا"۔ نیم مردہ حالت میں اسنے فون کی سکرین پہ دیکھا جہاں سگنلز بلینک تھے اور گھڑی پانچ بجا رہی تھی۔
کار کا بانٹ کھولے وہ اس پر جھکتے مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش میں تھی جب بائیں جانب جنگل سے کسی کے رونے کی آواز آئی جس پہ وہ بوکھلا کے سیدھی ہوئی۔
سورج پہ جھریاں پڑنا شروع ہو چکی تھیں' گھنا بیلا جس کے اونچے' موٹے درختوں کی ٹہنیاں وجد میں جھوم رہیں تھیں۔ "ک۔ ک۔ کون ہے؟"۔ زبان میں لکنت کے ساتھ پیشانی پہ اوس کے قطرے آ ٹھہرے' جواب میں آواز مدھم سے مدھم ہوتے دم توڑ چکی تھی۔
ہوا کا تیز جھونکا مشائم کے بالوں سے ٹکڑا کر گیا جس سے اس پہ ہیبت طاری ہوئی۔۔ مشائم فورا سے کار میں جا بیٹھی تھی۔
"یہ کیسی آواز تھی؟ ۔۔ شاید کسی جانور کے رونے کی؟"۔ خود سے مخاطب وہ اندازے لگانے لگی۔
خیال سمجھتے مشائم نے دوبارہ سے کار سٹارٹ کی جو اب سٹارٹ ہو چکی تھی۔
مشائم کو زور دار جھٹکا لگا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"احد ۔۔۔ احد ۔۔۔ احد"۔ اسکے سٹیج پہ آتے ہی ہوٹنگ شروع ہو گئی تھی اور ہر جا اسی کا نام فضا میں رقصاں تھا۔
"تیرے جانے کا غم
اور نا آنے کا غم
پھر زمانے کا غم کیا کرے
راہ دیکھے نظر
رات بھر جاگ کر
پر تیری تو خبر نا ملے"۔
بینڈ گروپ کے سامنے کھڑے ہوتے اسنے گیٹار سیٹ کیا اور اسکے تار چھیڑے' احد کی سریلی آواز پہ فینز نے شور و غل ہوا میں بلند کیا۔
"بہت آئی گئی یادیں
مگر اس بار تمہی آنا
ارادے پھر سے جانے کے
نہیں لانا ۔۔۔ تم ہی آنا"۔
قدموں کو حرکت دیتا احد فینز کے درمیان بنی گزرگاہ پہ آ کھڑا ہوا جو سٹیج سے منسلک ہونے کی بدولت اونچی تھی' احد کے قریب آتے ہی فینز نے ہاتھ ہوا میں لہرانا شروع کیئے۔
"میری دہلیز سے ہو کر
ہوائیں جب گزرتی ہیں
یہاں کیا دھوپ کیا ساون
بہاریں بھی برستی ہیں
ہمیں پوچھو کیا ہوتا ہے' بنا دل کے جیئے جانا"۔
موسیقی کی دھن کی حرمت میں احد نے ترنم میں وقفے کے بعد اگلا مصرعہ گنگنانا شروع کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پرائیویٹ روم میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر یکلخت سامنے ٹیبل پہ رکھے بکے پہ پڑی' لال گلال گلابوں کا مہکتا خوبصورت مجموعہ جو یقینا احد کیلیئے وہاں رکھا گیا تھا۔ ایک لڑکی ہونے کی حیثیت سے مشائم کو جیلسی فیل ہوئی جس پہ وہ دروازے کی جانب پشت کیئے قوت سے چلائی۔
"سیکیورٹی"۔
چند لمحوں کے توقف پہ ایک نفوس یونیفارم میں ملبوس مشائم کے سامنے وارد ہوا۔
"یہ بکے یہاں کس نے رکھا ہے ؟؟"۔ مشائم عتاب میں اسکی جانب گھومی۔
"میم مجھے نہیں پتہ"۔ احتراما سر جھکائے اسنے نفی کی۔
"کیا مطلب نہیں پتہ؟ اگر تمھیں نہیں پتہ تو کیا مجھے پتہ ہوگا؟"۔ مشائم مزید طیش میں آئی۔
"میم سچ میں مجھے نہیں پتہ کہ یہ یہاں کیسے آیا۔ میں کب سے باہر ہی کھڑا ہوں میں نے یہاں کسی کو آتے نہیں دیکھا"۔ اسنے خود اعتمادی سے کہا۔
"جاو تم"۔ اسکے وہاں سے جاتے ہی مشائم ٹیبل کی طرف آئی اور بکے اٹھا لیا' بکے کے سائیڈ پہ ایک کارڈ لگا تھا جو اندر سے خالی تھا۔
حیرت مآبی میں وہ سوچ میں ڈوبی۔ اس دم قدموں کی چاپ پہ اسنے فورا سے بکے سے گلاب نکالا اور بکے صوفے کے پیچھے پھینک دیا
"ارے مشی تم' تم یہاں کیا کر رہی ہوں؟ تمھیں تو وہاں کنسرٹ میں ہونا چاہیئے تھا"۔ دروازہ کھلا تو احد مشائم اور اپنے درمیان فاصلہ طے کرتا اس طرف آیا۔
"آنا چاہ رہی تھی ان فیکٹ میں گھر سے تمھارے کنسرٹ کیلیئے ہی نکلی تھی مگر راستے میں کار خراب ہو گئی۔ وقت کی قلت کے باعث سوچا یہیں تمھارا انتظار کر لیتی ہوں"۔ مشائم نے خوش کن انداز میں کہا۔
"یہ گلاب تم نے کہاں سے لیا؟"۔ مشائم کے ہاتھ کی جانب نظر اٹھتے احد کو فورا سے گزشتہ رات والا واقعہ برق رفتاری سے یاد آیا کیونکہ وہ گلاب اس گلاب سے خاصی مشابہت رکھتا تھا۔
"تمھارے لیئے ہے"۔ بولتے ہی اسنے گلاب احد کی جانب بڑھایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
روم میں آتے ہی مشائم نے کمر پہ پھیلے بالوں کو جوڑے میں مقید کیا' ڈریسنگ کے سامنے آتے آویزے ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھے پھر وارڈ روب کی جانب گھومی۔
جونہی سوٹ نکالتے مشائم وارڈ روب بند کرنے لگی اسکی نگاہ کپڑوں کے مابین پڑے بکے پہ گئی۔
"یہ تو وہی بکے ہے جو پرائیویٹ روم میں احد کیلیئے کسی نے رکھا تھا لیکن یہ یہاں کیسے؟؟"۔ پل بھر کو وہ سوچ میں ڈوبی' سوٹ کو سائیڈ پہ رکھتے اسنے بکے اٹھایا۔
جونہی اسنے ناک کو بکے تک رسائی دی' سڑی ہوئی درگندھ نے اسکے نتھنوں کے سامنے بین کیا جس سے اسنے بکے فرش پہ پھینکا۔ فرش پہ گرتے ہی گلابوں سے خون نکلنا شروع ہوا جس نے مشائم کے پیروں کا رخ کیا۔
مشائم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جیسے ہی اسنے چلانے کی غرض سے منہ کھولا' آواز جیسے اسکے حلق میں دب کے رہ گئی تھی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اسکی پشت کسی کے سینے سے ٹکڑائی ہے۔۔۔ خود پہ کسی کی سانسوں کی تپش محسوس کرتے اسکے خوف میں دگنا اضافہ ہوا۔
سانس لینے میں دشواری کے سبب اسنے ہاتھ گردن کی جانب اٹھایا جس پہ اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اسکے گلے پہ ہاتھ رکھا ہے اور اسکے نوکیلے ناخن مشائم کی گردن کے آر پار ہو رہے ہیں۔ مشائم کا خون رستے اسکے کپڑوں کو بھگونے لگا تھا۔
"یو ول بی ڈیڈ"۔ غیبی قوت نے مشائم کے دائیں کان کے قریب حتمی سرگوشی کی تھی۔
اگلے ہی لمحے مشائم کی آنکھ کھلی' ہڑبڑاہٹ اور ہیبت جوں کی توں برقرار تھی۔ روم میں اے سی کی خنکی کے باوجود پسینے سے اسکے بال بھیگے ہوئے تھے اور چہرہ بھی نم تھا۔
"شاید احد سے کی گئی محبت کے گہرے اثرات ہیں جو ڈراونے خواب آنے لگ گئے"۔ خود کو پر سکون کرتے وہ منمنائی۔
سائیڈ ٹیبل سے پانی اٹھانے کی کوشش میں گلاس اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پہ جا گرا۔۔ گلاس کے تعاقب میں اسنے نظر دوڑائی جہاں فرش پہ رکھا بکے اسکے گلے سے نکلی حلق پھاڑ چیخ کا سبب بنا۔